خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کی سنگلاخ وادیوں میں جنم لینے والے نوجوان مسعود آفریدی نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرکے یہ ثابت کر دیا کہ حوصلہ، محنت اور استقامت کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ دیوار نہیں بن سکتی۔
دہشتگردی سے متاثرہ علاقے میں پلنے والا یہ باہمت نوجوان آج گلوبل تائیکوانڈو کا عالمی چیمپئن ہے جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ خیبر کے ہر بچے، ہر نوجوان کو امید کی ایک نئی کرن دی ہے۔
سال 2025 مسعود آفریدی کے خوابوں کی تعبیر لے کر آیا، دبئی میں ہونے والی گلوبل تائیکوانڈو ورلڈ چیمپئن شپ میں دنیا کے 25 سے زائد ممالک کے کھلاڑی شریک تھے جہاں مسعود آفریدی نے ایک طلائی (گولڈ) تمغہ اور مزید 3 میڈلز اپنے نام کر کے سب کو حیران کر دیا، یہی نہیں، اس سے پہلے وہ روس اور کرغزستان میں بھی پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیت چکے ہیں۔
جیونیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مسعود آفریدی نے کہا کہ ان کا بچپن غیر معمولی حالات میں گزرا، کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور پھر قبائلی علاقوں میں شدت پسندی اور غربت کا عفریت اس کے خوابوں کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا تھا لیکن مسعود نے ہار نہ مانی، اس نے تعلیم اور تربیت دونوں کا سفر جاری رکھا اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی کچھ کر دکھانے کا عزم کرلیا۔
مسعود آفریدی نے مزید کہا کہ سال 2023 میں جب پاکستان میں عالمی سطح پر تائیکوانڈو کا کوئی خاص نام و نشان نہ تھا، تب میں نے پاکستان میں پہلی بار گلوبل تائیکوانڈو فیڈریشن کا تعارف کروایا، اپنی مدد آپ کے تحت تربیت حاصل کی، مقامی سطح پر نوجوانوں کو تیار کیا اور پھر عالمی سطح کے مقابلوں میں شرکت کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا اور آج بھی گلوبل تائیکوانڈو فیڈریشن پاکستان کا جنرل سیکرٹری ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ جب 2023 میں کرغستان چیمپئن شپ کھیلنے کے لیے جارہے تھے تو کرغزستان کے سفارتخانے نے ان کا ویزہ 23 بار مسترد کیام 24 ویں بار جب اپلائی کیا تو ویزہ مل گیا اور چیمپئن شپ کی افتتاحی تقریب میں صرف 2 دن رہ گئے تھے، اخراجات کی کمی پورا کرنے کے لیے اپنا موبائل سیٹ تک فروخت کیا۔